اُونٹوں کی قربانی
An Urdu fiction story, narrating the events around the sacrifice of five camels.
نُوٹ: یہ میری لکھی ہوئی ایک فکشنل کہانی ہے۔ کہانی کے کردار نقلی ہیں لیکن تمام واقعات اصلی۔ میں نے پانچ چھہ سال پہلے ایک اُونٹوں کی قُربانی دِیکھی، اور یہ کچھہ اِتنا عجیب اور مُشکل تجربہ تھا کے اِسے ایک کہانی کی صُورت میں لکھنا ہی تھا۔ کہانی دُو تین سال پہلے لکھی تھی۔ کچھہ ہفتے پہلے دُوبارہ پڑھی تُو مجھے خود اچھی لگی، اور میں اِسے خُوشی کے ساتھہ دُنیا کو دِے رہیں ہوں، پڑھنے کے لئے۔
بقرہ عید آئی تو ہمیشہ کی طرح عیان بڑے جوش میں تھا۔ اپنا بکرا تو وہ عید سے مہینہ بھر پہلے ہی لے آیا تھا اور اسکے کھانے پینے سے لے کر حاجت روائی کے ٹائم تک سب باتوں کو یوں سمجھ گیا تھا جیسے بکرا اور وہ یک جان اور دو قالب۔ ساتھ ہی محلے بھر کے جانوروں کی بھی اسے پوری خبر تھی: کس کے بکرے کتنے کے ملے، کس کی گائے رسی چھڑٓا کر بھاگ نکلی، کونسی منڈی میں کیا بھاؤ چل رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جس کسی کو بھی جانور خریدنا ہوا، عیان میاں انکے ساتھ چل نکلے۔ بقرہ عید کے پہلے دُودنوں میں جب اس نے اپنے بکرے کی قربانی کر لی اور پھر محلے کے سارے بڑے سبی بیلوں، گلابی بکروں، اور آسٹریلین گائیوں کی قربانی بھی اٹینڈ کرلیں توآخری دن طے کیا کے قریبی مسجد میں جاکر اونٹوں کی قربانی دیکھے گا۔
" پانچ اونٹ کٹیں گے وہاں اماں، پانچ!" اس نے اپنی اماں کو بتایا۔
اب اونٹوں سے عیان کی اماں کو اپنی الماری کا دیمک زدہ دروازہ یاد آیا۔ بات کچھ یوں تھی کے اماں کو اگر اللہ اور رسول کے بعد کسی پر اعتبار تھا تو وہ تھے ٹی وی پر آنے والے ماہرین اور ان کے بتائے ہوئے ٹوٹکے اور علاج، توجب عیان نے اونٹوں کی قربانی کی بات کی تواماں کو اپنا ایک بڑا پسندیدہ ٹی وی ٹوٹکوں کا ماہر یاد آگیا اور وہ کہنے لگیں، " عیان، وہاں جاوٴگےتو ان سے کہنا ایک اُونٹ کی ہڈی ہمیں دے دیں۔"
" ہیں، اب اونٹ کی ہڈی کا آپ کیا کریں گیں؟"
"بھئی، الماری کو دیمک کھاےٴجا رہی ہے، اب جہاں کہیں اونٹ کی ہڈی ہوتی ہے وہاں سے دیمک بھاگ جاتی ہے۔"
"چلوجی، اونٹ کی ہڈی نہ ہوئی دیمک مار مورٹین ہوگیٴ۔" عیان ہنسا۔
"وہ جو مارننگ شو میں سعید احمد آتا ہے نہ، وہ کہ رہا تھا کہ جہاں اونٹ کی ہڈی دبا دی جائے، وہاں ایک سو پچاس گز کے فاصلے تک کوئی دیمک نہیں آتی۔ اسکی سب باتیں صحیح ہوتی ہیں تو یہ بھی صحیح ہوگی۔ تم یہ سب چھوڑو، بس ہمیں ہڈی لادو۔"
" اماں، اب میں ان سے جاکر نہیں کہہ رہا کے ہڈی دے دو، دیمک بھگانی ہے، بےوقوف لگوں گا۔ایسا کریں، آپ ساتھہ چلیں اور اُن سے خود جاکر مانگ لیں۔"
" لو،اب اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ ہمیں لے چلو ہم خود مانگ لیں گے۔"
توطے ہوا کے اماں اور عیان مسجد جائیں گے۔ عیان اونٹوں کی قربانی دیکھے گا اور اماں ہڈی کی درخواست کریں گیں۔ پانچ اونٹوں کی قربانی کا سوچ کر ہی عیان کا ایڈریلن اوپر جا رہا تھا اور اماں خوش تھیں کے چلو الماری بچ جائے گی۔
ڈھائی بجے جب دونوں ماں بیٹے گھر سے نکلے تو گوکے سہ پہر ہونے کو آئی تھی مگر گرمی پھر بھی عروج پر تھی۔ عیان نے سفید کرتےپاجامے پہنے، سرپرپی کیپ جمائی اور اماں نے اپنا چہرہ چادر میں چھپایا اور دونوں مسجد کی جانب چل دئیے۔ سڑک کے کنارے انتڑیاں، پیٹے، اور گائے بکریوں کے کٹے ہوئے سر پڑے سڑ رہے تھے۔ اور کچھہ گھروں کے دروازوں کے نیچے سے خون اور پانی ملکر بہہ رہا تھا۔ اِن گندے، بدبوُدار راستوں سے گزرتے ہوئےجب وہ مسجد پہنچے تولگا کہ علاقے کے سارے مکین وہاں آئے ہوئے تھے۔ مسجد کا وسیع و عریض گراؤنڈ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ نوجوانوں کے ٹولے، برقع پوش عورتیں ،بچوں کو کندھوں پر بٹھائے آدمی۔ اماں نے عیان سے پوچھا، " ارے اتنے لوگ یہاں کیوں آئے ہوئے ہیں؟"
"اونٹوں کی قربانی دیکھنے، اماں! ابھی آپ دیکھتی جائیے، پوراانٹرٹینمنٹ شوچلے گا۔" عیان نے کہا۔
اماں نے سر گھما کر چاروں جانب دیکھا، " بڑے لوگ آئے ہوئےہیں، بھئی بہت بڑی مسجد ہے۔"
"ایسی ویسی!کئی سو جانوربیچتے ھیں مسجد والے۔ قربانی کے پہلے دن تو اماں دیکھنے والا منظر ہوتا ہے، ہر پانچ منٹ پر ایک گائے گرتی ہے۔"
اماں مرعوب ہوگئیں اور خوش بھی ہوئیں کے "اللہ کا کام بڑے پیمانے پر ہورہا ہے، کتنی اچھی بات ھے۔"
لاؤڈسپیکر پر زور دار آواز میں ایک مشہور نعت گونج رہی تھی۔ اور گراوٴنڈ کی کچی مٹی سے لگتا تھا گرمی کے بھپکے نکل رہیں ھوں۔ عیان کہنے لگا،" ویسے گرمی بڑی ہے۔"
اماں بولیں،" ہاں تو یہ تو ہمیشہ سے ہوتا ہے۔ قربانی کے تین دن بڑی سخت گرمی ہوتی ہے۔ بھئی اگر گرمی نہ ہو تو یہ جو اتنا خون بہتا ہے، پیٹے نکلتے ہیں، اس کی بہت بدبو ہو جائے، کیسی کیسی بیماریاں پھیل جائیں، بس اللہ میاں گرمی کردیتے ہیں کہ یہ سب خشک ہو جائے اور کوئی مسئلہ نہ ہو۔ ایک بکرا عید پر اور ایک محرم کے دو دنوں میں، بڑی سخت گرمی ہوتی ہے۔ اور کسی دن کبھی ہوئی ہے اتنی گرمی؟"
اس سے پہلے کے عیان کوئی جواب دیتا، ہجوم نے زور کا شور مچایا۔ دیکھا تو مسجد کے گراؤنڈ کے دوسرے کنارے سے، جانوروں کےعارضی انکلوژر کی جانب سے، کچھ آدمی اونٹوں کی نکیلیں تھامے لائن میں چلے آ رہے تھے۔ قربانی کا وقت بلآخر آن پہنچا تھا۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ۔ اماں نے اونٹ گنے، پانچ ہی تھے جیسے عیان نے کہے تھے۔
آہستہ آہستہ چلتے ہوئے آدمی اور اونٹ گراؤنڈ کے عین بیچ میں آکر رک گئے۔ جلدی جلدی لوگ ان کے گرد جمع ہونے لگے یہاں تک کہ انہوں نے کچھ سو افراد کا اک حلقہ بنالیا۔ لیکن اِس حلقے کے بیچ میں، ان تمام لوگوں کے اُوپر سے لمبے، اونچے اونٹوں کےسر اور کوہان ہوا میں جیسے تیرتے نظر آ رہے تھے۔
اماں اور عیان کافی پیچھے کھڑے تھے، مسجد کے احاطے میں موجود مدرسے کی عمارت کے پاس۔ عیان اُچک اُچک کراونٹوں کے گرد موجود حلقے کے اندر دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لاؤڈسپیکر پر نعت بند ہوئی اور ایک آدمی کی آواز آئی،" سب لوگوں سے درخواست ہے اوٴنٹوں کے زیادہ قریب نہ جائیں، اپنی جان کی حفاظت کریں۔ ماؤں اوربہنوں سے درخواست ہے کہ وہ مدرسے میں چلی جائیں اور اللہ کی راہ میں کی جانے والی قربانی کو آرام سے چھت پر سے دیکھیں۔ بھائیوں سے۔۔۔"
عیان نے اماں سے کہا، "اماں آپ اوپر چلی جائیں۔ میں زرا آگے سے دیکھ کر آتا ہوں۔"
"اے نہیں عیان، اوٴنٹوں کے زیادہ قریب مت جانا، اپنے منہ میں آدمی کا سر پکڑ لیتے ہیں۔"
"اماں، کچھ نہیں ھو گا۔" عیان سننے والا نہ تھا، یہ اماں کو بھی پتہ تھا۔ چارونہ چار، انھوں نے عیان کو گراوٴنڈ میں چھوڑا اور مدرسے کی عمارت میں چلی گئیں۔
شور بڑھ رہا تھا، ہجوم میں اضافہ ہو رہا تھا اور قربانئ کو صیح سے دیکھنے کے لئے لوگ اُونچی جگہوں کو تلاش کر رہے تھے۔کچھ درختوں پر چڑھے تھے، کچھ لوہےکے جنگلوں پر لٹکے تھے، اور ایک بڑی تعداد مسجد کے احاطے کے اندر بنی عمارتوں کی چھتوں پر سے جھانک رہے تھے۔ لیکن عیان کو دُور سے قربانئ دیکھنے میں دلچسپی نہ تھی، اُسے قربانی اگر دیکھنی تھی تو قریب سے، اُونٹوں سے چند قدموں کے فاصلے سے۔ سو وہ اُونٹوں کے گرد بنے لوگوں کے حلقے میں چلا گیا۔ لوگوں کے درمیان موجود چھوٹی چھوٹی جگہوں میں گھستا، کسی کا بازو ہٹاتا، کسی کے کندھے کو پکڑتا، وہ حلقے کے بلکل آگے نکل آیا کے دائرے کے اندر موجود اُونٹ اُسکے سامنے تھے۔
لاوٴڈ اسپیکر سے آواز آئی، "پیارے بھائیوں، یہ قربانی اللہ اور اُسکے دین کا نام بلند کرنے کے لئے ہے۔ سو ہر اُونٹ کئ قربانی پر ہم نعرہ تکبیر بلند کریں گے اور آپ سے درخواست ہے کہ جواب پورے جذبے سے دیجئے گا۔ تو پھر میں کہوں گا، نعرہ تکبیر؟!"
مجمے نے ملکر جواب دیا، "اللہ اکبر!"
کچھ دیر نعرے لگےمگراِس شوروغُل میں بھی اُونٹوں نے کوئی ردِ عمل نہ دِیا۔ اِسی اثنا میں ایک قصائی اپنے خون آلود کپڑوں میں ایک اُونٹ کی طرف بڑھا اور اُسکی آگے والی دائیں ٹانگ کو گھٹنے کے پاس سےموڑا۔ پھرایک رسی کو مڑی ہوئی ٹانگ کے دو حصوں کے گرد ایسے باندھا کے اُونٹ کا پیر ہوا میں مُعلق ہو گیا اور وہ تین پیروں پر کھڑا رہ گیا۔
عیان مسمرائز ہوا اُونٹوں کودیکھتا رہا جو اپنی لمبی ٹانگوں پر بےڈھب انداز میں کھڑے تھے، گلے میں رنگ برنگی مالائیں پہنے، لوگوں سے بےنیاز۔ اُن کے جسموں سے اور زمین پر پڑے اُن کے گوبر سے خاص مہک آ رہی تھی۔ کئی سو شور مچاتے آدمیوں اور پا نچ اُونٹوں کے پاسں کھڑے، اُنکی مہک سوٴنگھتے، عیان ایک اور دُنیا میں چلا گیا جہاں انسان اور جانورآمنےسامنے تھے، جھاں جدید تمدن اور اُسکی چھوٹی چھوٹی شا ئستگیوں اور ہمہ وقتا بوریت کی جگہ نہ تھی۔ ایسی دنیا جہاں یا تو آپ جانور کو مار گرائیں گے یا وہ آپ کو۔
مدرسے کی چھت پر کھڑی اماں کا سر گرمی سے چکرا رہا تھا اور آنکھیں چندھیا گئیں تھیں۔ لوگوں کے ہجوم اور نعروں کے شور سے پریشان وہ گھر واپس جانا چاہ رہی تھیں۔ نیچے گراوٴنڈ میں، اُونٹوں کے پاس کھڑے اِیک خوش لباس آدمی نے اپنے ہاتھہ میں اِیک طے ہُوئے کپڑے کو کھولا اور ایک لمبا خنجرنکالا۔ پھر وہ اطمینان سے چلتا ہوا سب سے پہلے اُونٹ کے پاس گیا۔ اُونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے ایک اور آدمی نے رسی کو اور مظبوطی سے ایسے پکڑا کہ تین ٹانگوں پر کھڑا اُونٹ اپنی جگہ پر پھنسا رہ گیا ۔ بڑی ملائمت سے، خوش لباس آدمی نے، خنجر کو اُونٹ کی گردن پر ایک خاص مقام پر گھونپ دِیا، جیسے کوئی مکھن میں چھری گھونپے۔ کئی موبائل فون بلند ہوئے، کئی تصویریں کھنچیں۔ لاوٴڈ اسپیکر پر نعرہ تکبیر لگا اور مجمعے نےتصویریں کھینچتے ہوئے صدا لگائی، "اللہ اکبر!"
اُونٹ کی گردن سےخون کی ایک موٹی دھار پھوٹی اور اُس کے سامنے کی پیلی زمین یکدم لال اور نارنجی ہو گئی۔ اُس نے نہ رسی چھڑانے کی کوشش کی اور نہ ہی چنگھاڑا۔ تین ٹانگوں پر وہ ایک وقار کے ساتھ کھڑا رہا جیسے اگر وہ اپنی گردن سے گرنے والے خون پر توجہ نہیں دے گا تو سب ٹھیک رہے گا۔
اماں کے پاس کھڑی ایک عورت بولی، "یہ جو اُونٹ کا خون ہُوتا ہے نہ خون، یہ گھٹنوں کے لئے بڑا اچھا ہوتا ہے۔"
کوئی اور وقت ہوتا تو اماں اس نئے ٹوٹکے کو اور سمجھنا چا ھتیں کیونکہ اُن کے اپنے گھٹنے بھی درد کرتے تھے، لیکن اِس وقت اماں کو صرف بے زبان اُونٹ پرترس آیا۔ اُنھوں نے سُوچا، " اللہ میاں نے قر بانی بھی عجب بنائی ہے، بڑا مشکل کام ہے جانوروں کو ذبح کرنا۔"
اُونٹ کا خون ابھی بھی گر رہا تھا، لگتا تھا کبھی ختم نہ ہو گا۔ لیکن پھر خون کی موٹی دھار پتلی ہوئی، اُونٹ کے پیر لڑکھڑائے اور بالآخر وہ زمین پر گر گیا۔
اپنے باپ کے کندھوں پر چڑھی ایک بچی نے پوچھا، "ابو، کیا یہ اُونٹ مر گیا؟"
"نہیں"، باپ نے تصیح کی، "قربان ہو گیا۔"
پہلے اُونٹ کی بہ نسبت، دوسرے اُونٹ نے خنجر لگتے ہی ایک چنگھاڑ لگائی۔ قصائیوں نے اُسکی رسی کو مظبوطی سے پکڑنے کی کوشش کی لیکن اُونٹ نے اپنا سر زور سے جھٹکا اور اپنے آپکو چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کی، لیکن رسیوں میں بندھا وہ چند قدم ہی چل پایا۔ جیسے ہی اُونٹ اُچھلا، عیان اورحلقے میں موجود دُوسرے لوگ چند قدم پیچھے ہٹے۔ اور سب نے شور مچایا، خوف سے نہیں بلکہ اِیسے جیسے کھیل کےمیدان میں کوئی دلچسپ مرحلہ ہو اور تماشائی جوش میں آ جائیں۔ اُونٹ دُوبارہ اُچھلا، لوگ پھر پیچھے ہٹے، چیخیں دُوبارہ اُٹھیں، تالیاں اور سیٹیاں دُوبارہ بجیں۔
اُونٹ نے ایک بار پھر زور لگایا، اِس بار وہ بھاگا تو اُس سے بچنے کے لئے عیان اور کئی دُوسرے لوگ حلقہ توڑ کر سائیڈوں میں بھاگے، اُونٹ کے خون کے قطرے، عیان کے سفید کُرتے پر گِرے اور اُسے داغدار کر گئے۔ بھاگتے ہوئے عیان منہ کے بل گِرا، اُس نے تیزی سے اُٹھنے کی کوشش کی کے کہیں کسی کے پیروں تلے نہ آ جائے لیکن لوگوں کے زُور میں پھر گِر گیا اور اُس نے سوچا کے اُونٹ کا پیر اُس پر اب پڑا کے جب ۔ لیکن اُونٹ کا پیر اُس پر نہیں پڑا۔ بل آخر، لوگوں کا ہجوم کم ہوا، عیان بھی اُٹھا اور دِیکھا کے قصائیوں نے اُونٹ کو زمین پر گِرا دِیا تھا۔ لوگ ویسے ھی شور مچاتے اُونٹوں کے گِرد پھر جمع ہُو گئے تھے اور تصویریں نکال رہے تھے جیسے کُچھ نہ ہوا ہُو۔ عیان نے اپنے کپڑوں پر سے مٹی جھاڑی، حلقے میں پھر گُھسا، اور تیزی سے دھڑکتے ہُوئے دلِ کے ساتھہ سُوچا، "مائی گاڈ، آئی فیل سو آ لا ئیو! ٹو ڈاوُن، تھری مور ٹو گو!"
جب قربانی تمام ہُوئی تو اماں نیچے آئیں۔ ہجوم چھٹ چکا تھا، اُونٹوں کے لا شے زمین بُوس ہو چُکے تھے اورکراچی کا آسمان آگ اُگل رہا تھا۔ اماں کو قصص الانبیا کے وہ قصے یاد آ گئے جہاں قومیں قربان کئے ہوئے جانور کو کسی اُونچے مقام پر ڈال دیتیں تھیں اور اگر قربانی قبول ہوتی تو آسمان سے ایک آگ اُترتی اور جانورکو اپنے ساتھہ لے جاتی۔ اوراماں کو لگا کے وہ بھی اس وقت میں چلیں گئیں ہیں اور چیختے چلاتے اکیسویں صدی کے لوگوں کے درمیان، آسمان سے ایک آگ اُترے گی اور اُونٹ اور اُنکا خون، سب لے جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب اللہ کے پاس جانور کا گُوشت اور خُون نہیں پہنچتا۔ انسان ہی قربانی کے گُوشت کے سیخ کباب اور قورمے بنا کر کھا لیتے ہیں۔
عیان کو دیکھتے ہی انہوں نے اس کے کپڑوں پر لگے خون کا پوچھا۔ عیان نے مسکراتے ہوئے کہا،" اُونٹ کا ہے۔"
اماں کا دِل تو بس گھر جانے کو تھا لیکن اُنہوں نے سُوچا کے جب اِتنا سب کُچھہ دیکھ ہی لیا ہے تو ہڈی بھی لے لی جائے۔ پاس ہی شامیانوں کے نیچے کئی قصائی چھرے اور کلہاڑیوں کی مدد سے گوشت دھڑادھڑکاٹ رہے تھے۔ عیان ویسے تو بڑا ایکسائیڈڈ تھا لیکن ہڈی مانگنا اُسے ابھی بھی بڑا بیوقوفی کا کام لگا۔ مگر قصائیوں کے پاس صرف اماں ہی نہیں، کچھ اور لوگ بھی ہڈی لینے آئے ھوئے تھے۔ "چلو جی، اور بھی بیوقوف لوگ ہیں یہاں،" عیان نے مسجد سے نکلتے ہوئے اماں کو تنگ کرنے کو کہا۔
"کیا بیوقوفی بیوقوفی لگا رکھا ہے، یہ جو اتنا شورشرابہ ہوا، بیچارے جانوروں کو بھی نا حق پریشان کیا، یہ کوئی کم بیوقوفی تھی؟"
"لو، شورشرابے میں ہی تو مزہ آ رہا تھا۔ اب کیا خاموشی سے اُونٹ کاٹتے؟"
"ہاں اور نہیں تو کیا؟ خاموشی سے، پیار سے جانور کی قربانی کر دیتے، اِتنی ہلڑبازی اور دِکھاوے کی کیا ضرورت تھی؟"
"اماں، آج کل تو ہلڑبازی اور دِکھاوے کا ہی زمانہ ہے۔ مسجد والے اِس سال پبلسٹی کریں گے تو اگلے سال لوگ اُن کے پاس قربانی کے جانور لینے آئیں گے۔ اگر خاموشی سے کریں گے تو کسی کو کیا پتہ چلے گا؟"
اماں چپ ہو گئیں، پھر کہنے لگیں، "بھیا، بس گھر چلو، حلق میں کانٹے پڑے ہوئے ہیں۔"
شام تک اماں کو گرمی لگ گئی اور وہ بستر پر جا لیٹیں۔ عیان نے اُن کی لائی ہوئی اُونٹ کی ہڈی لےکرگھر کے باہر زمین میں دبا دِی۔ پھر اندر آ کر دیمک زدہ الماری کے دروازے کو دیکھنے لگا۔ اُس میں چھوٹےچھوٹے بہت سارے سوراخ تھے اور دروازہ کھوکھلا ہو چکا تھا ۔ "الماری تو نہیں بچنے والی، اور اُونٹ کی ہڈی سے تو بلکل نہیں" اُس نے سوچا۔
بقرہ عید اختتام پر تھی۔ وہ اگلے دِن آفس جانے کی تیاری کرنے لگا۔ عید کی رنگینیوں اور ہلچل کے بعد دُوبارہ نُوکری پر جانے کا اُس کا دِل نہ تھا۔ کہاں اُس نے بکرے گِرائے تھے اور اُونٹوں کے آگے بھاگا تھا، کہاں اب وہی ایکسل شیٹز، میٹنگز، اور رپورٹس کی بورنگ اور گھسی پٹی کارپوریٹ زندگی شروع ہو جائے گی۔ عیان نے سُوچا، خیر ہے۔ محرم آنے والا ہے، حلیم بنانے کا شُغل رہے گا، اور اِس دفعہ تُو دُوستوں نے ملکر پُوری بارہ دِیگیں بنانیں ہیں۔ اور پھر ربیع لاول آجائے گا تُو اُس میں پُوری گلی میں ایسی لائٹنگ کرنی ہے کے دُوسرے محلے کے لڑکے دیکھتے رہ جائیں۔ عید تُو چلی گئی لیکن کوئی نہ کوئی موقع لگا رہے گا دِل بہلانے کا۔
اگلے دن صبح گھرسے نکلا تو دیکھا گھر کے باہر کی زمین کھدی پڑی تھی۔ رات میں کوئی کتا اُونٹ کی ہڈی نکال کر لے گیا تھا۔ چلو جی، اماں کی رہی سہی اُمید بھی گئی۔ عیان نے زیرِلب کُتے کو ایک گالی دِی ، پھر سوچا، "خیر، اُس ہڈی سے کچھ ہونے والا نہ تھا، دِیمک ایک دفعہ لگ جا ئے تُوکھوکھلا کر کے ہی چھوڑتی ہے " اور آفس کے لئے جلدی سے نکل گیا، دِن لمبا تھا کیونکہ واپسی میں دُوستوں کے ساتھہ ملکر محرم کے لئے بھاری سلورکی دِیگیں بھی تُو خریدنیں تھیں۔